خلیفہ ھارون رشید کا دور تھا مدارس (سرکاری سکول) اجاڑ ھونے لگے ۔ خلیفہ نے قاضی القضاۃ سے کہا کیا سبب ہے کہ مدارس و معالم کی طرف عوام کا رحجان کم سے کم تر ھوتا جا رہا ہے ؟ 

قاضی صاحب نے جواب دیا اگلے سال جواب دوں گا خلیفہ تڑپ کر بولے سوال ابھی اور جواب سال بعد ؟ سمجھ نہیں آئی بات! قاضی صاحب نے فرمایا ہر سوال کی نوعیت مختلف ھوتی ھے یہ ایسا سوال جس کے جواب میں سال لگ جائے گا ۔

وقت گزرنے لگا اگلی عید آ گئی عید کی امامت کے فرائض قاضی صاحب ادا کیا کرتے تھے ۔ عوام وخواص سبھی عید کے دن عید گاہ پہنچ گئے مگر قاضی صاحب تشریف نہیں لائے ۔ قاضی صاحب کو لینے کے لیے سرکاری نمائندے پہنچے مگر قاضی صاحب نے انکار کر دیا کہ وہ عید کی نماز نہیں پڑھائیں گے ۔ نمائندگان و کارپردازگان کے اصرار و منت سماجت پر قاضی صاحب نے فرمایا کہ میں پالکی میں جاؤں گا مزید یہ کہ پالکی بھی خلیفہ وقت اٹھانے کے لیے آے ۔ وزراء و نمائندگان ششدر و انگشت بدنداں رہ گئے یہ کیسا غیر معقول مطالبہ ھے مگر قاضی صاحب ڈٹے رہے ۔ مجبوراََ خلیفہ کو اطلاع دی گئی خلیفہ علم و علماء دوست انسان تھے ۔ خود چل کر آ گئے قاضی صاحب تشریف لائے عید کی نماز ھو گئی۔

 وقت گزر گیا لیکن عید کے بعد زیادہ وقت نہیں گزرا تھا خلیفہ پھر حاضر ہوئے اور کہا قاضی صاحب مدارس میں طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ھو گئی ھے بٹھانے کے لیے چٹائیاں بھی کم پڑ گئی ہیں اور وزراء اور ارکان سلطنت کے بچے بھی چٹائیوں پر بیٹھے علم حاصل کر رہے ہیں ۔

قاضی صاحب نے فرمایا آپ کے سوال کا جواب مل گیا ؟

خلیفہ بولے کون سا سوال کون سا جواب ؟ 

قاضی صاحب بولے آپ نے کہا تھا کہ مدارس میں طلبہ کیوں نہیں آتے ؟ جواب کیا ہے ؟ خلیفہ نے کہا ۔ قاضی صاحب نے کہا آپ حاکم وقت ہیں ، آپ نے ایک بار صاحب علم امام کو عزت دی ہے تو مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے اتنے آ گئے کہ بیٹھنے کی جگہ نہیں مل رہی ، اگر اسی طرح ارباب علم و فضل کی توقیر کرو گے تو تبھی لوگ علم کی طرف آئیں گے ۔

  اس واقعہ کے بر عکس میرے ملک خداداد پاکستان میں میں ہیرو یا تو کھلنڈرے ہیں یا فلمی اداکار ( جنھیں اچھے وقتوں میں کنجرکہا جاتا تھا) 

یہاں ڈاکٹر قدیر خان جیسے اصلی ہیرو کو جب عزت دینے کا وقت آیا تو پس زنداں ڈال دیا گیا اور ان کی آخری زندگی فٹ پاتھوں کی نظر ھو گئی ۔

 یہاں مدارس کے علماء و ائمہ اور وارثان علم نبوت کو سپیکروں کے جھوٹے مقدمات میں چوروں کے ساتھ ہتھکڑیاں لگائی جاتی ہیں ، سکول و کالج کے اساتذہ کو ان کے شاگردوں پولیس والوں کے ھاتھوں ذلیل و رسواء کیا جاتا ہے ، حق مانگنے پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہے اوباشوں اور بدمعاشوں سے بد ترین سلوک کیا جاتا ہے  آج تک کسی طالب علم کو انٹر نیشنل ایوارڈ حاصل کرنے پر کوئی شاہی پروٹوکول نہیں دیا گیا ، کروڑوں روپے کی برسات فقط ایک نیزہ پھینکنے والے پر کر دی جاتی ہے اور فل شاہی پروٹوکول دیا جاتا ہے ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں کتنے طلبہ نے بین الاقوامی سطح پر نمایاں کامیابیاں حاصلِ کیں مگر کسی حاکم وقت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔

جب ملک وملت کی خدمت پر رسوائی ملے ، علم کے وارثوں کی بے توقیری ھو گی، جب اچھے ناچنے والوں کو ہیرو اور ہیروئن قرار دے کر قومی سطح کے اعزازات و ایوارڈز سے نوازا جائے گا جب ملک کو ایٹمی پاور بنانے والے بے نام کر دیے جائیں گے تو میرے ملک میں گویے( مراثی ، بھانڈ کنجر) اور کھلنڈرے تو پیدا ھو سکتے ہیں مگر کوئی غزالی کوئی رازی کوئی بو علی سینا کوئی ڈاکٹر قدیر خان کوئی طارق کوئ خالد کوئی ٹیپو سلطان کوئ میجر عزیز بھٹی کوئی ایم ایم عالم پیدا نہیں ھو گا ۔ اگر کسی کسی کی سمجھ میں آ جاۓ تو پلٹ آئیں ۔ اپنے ماضی کی طرف اپنے روشن مستقبل کی طرف ۔

ھمارا مستقبل تعلیم میں ھے تقدس میں ہے حیا اور عفت و پاکدامنی اور غیرت و حمیت میں ہے اپنے اصلی ہیروز کو پہچانیں ، ان کی قدر کریں ورنہ 

،،تمھاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں ،،

Comments

Popular posts from this blog

شہزادی اور دھوبی کا بیٹا.

کامیاب شوہر