مقام و مرتبہ مُصطفوی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم 

مولانا رُ:وم رحمتہ ﷲ علیہ نے بیان کِیا ہے کہ

" چار پانچ نابینے تھے،انہوں نے ہاتھی کبھی نہ دیکھا تھا۔اُن کو کسی نے پکڑ کر ہاتھی کے سامنے کھڑا کر دیا اور کہا کہ یہ ہاتھی ہے تو تم باری باری اس کو ٹٹولو اور ہاتھوں سے چُھو کر بتاؤ کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے؟ 


ایک نابینے نے جو ہاتھ لگایا تو اُس کے سونڈ پر جا کر ہاتھ لگا۔ اُس نے اچھی طرح ہاتھ کو گُھمایا، اچھی طرح پھیرا اور الگ کھڑے ہو کر سوچنے لگا کہ ہاتھی کی شکل کیا ہو گی؟ 


دوسرے کا ہاتھ اس کے پیٹ پر لگا۔ اُس نے ہاتھ کو آگے پیچھے خوب گُھمایا اور ہٹ کر سوچنے لگا۔


تیسرے کا ہاتھ ہاتھی کے کانوں پر لگا۔ اچھی طرح ٹٹول کر اس کو غور سے سوچنے لگا۔


الغرض جس کے ہاتھ جس جگہ پر پڑے اُس نے ٹٹول کر وہی نقشہ ذہن میں جما لیا۔


جب اُن سے پوچھا گیا ہاتھی کیسا ہوتا ہے؟ 

تو جس کے ہاتھ کان پر پڑے تھے تو اُس نے کہا کہ وہ جو ہاتھ والا پنکھا نہیں ہوتا، ہاتھ والے پنکھے کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ چونکہ کان تک ہی گئے تھے۔


جس کا ہاتھ اُس کے پیٹ پر پڑا تھا اُس نے کہا دیوار کی طرح ہوتا ہے۔

جس نے سونڈ یا ٹانگ کو چُھوا تھا اُس نے کہا ستون کی طرح ہوتا ہے۔

الغرض جس کا ہاتھ جہاں پڑا اُس نے وہی تصوّر بنا لیا اور پانچوں کے پانچوں آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔


وہ کہہ رہا ہے دیوار کی طرح ہے اور وہ کہتا ہے تم جھوٹ بولتے ہو ستون کی طرح ہے اور وہ کہتا ہے تم جھوٹ بولتے ہو یہ تو پنکھوں کی طرح ہے۔


وہ آپس میں جھگڑ رہے ہیں اور یہ ساری بات سمجھا کر مولانا روم رحمتہ ﷲ فرماتے ہیں ارے نابینو! جس شئے کی رسائی ہاتھ کے چُھونے سے نہ ہو، دیکھنے سے ہو اور دیکھنا نصیب نہ ہو تو تم اندازہ کیا کر سکتے ہو؟ یہ سارے اندازے نابینوں کی طرح ٹٹول کا نتیجہ ہیں۔ ارے وہ عظمتِ نبوتِ مُصطفوی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم جس کا اندازہ تمہیں نصیب ہی نہ ہو تم اپنے ناقص فہم کے مطابق ٹٹولتے پِھرتے ہو۔ جس کی سمجھ میں جو آتا ہے وہی تصوّر قائم کر لیتا ہے اور جس کی سمجھ میں جتنی بات آتی ہے وہ تصوّر کر لیتا ہے۔"


سو جس کی نظر فقط بشریت پر پڑتی ہے وہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبے کو اُسی پیمانے پر ناپنے لگتا ہے۔ جس کی نظر چار قدم اور آگے جاتی ہے نُورانیت کو دیکھتا ہے۔

وہ فقط نُور نُور کہتا رہتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بشریت بھی ہے نُورانیت بھی ہے۔ لیکن فقط یہی دو چیزیں نہیں اور بھی بہت کچھ ہے۔


مقام و مرتبہ اِتنا بُلند ہے کہ وہاں بشریت جا سکے نہ نُورانیت، تو جو جتنا دیکھتا ہے بس اُسی پر اَڑا ہُوا ہے اور اُسی پر جھگڑا کر رہا ہے، تو مقام و مرتبہ مُصطفوی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا اِدراک نہ ہمیں حواس سے ہو سکتا ہے، نہ عقل سے، نہ لطائف و وجدان سے ہو سکتا ہے۔ اس کی معرفت نہیں جھلک جتنی بھی ہو اُسی کو نصیب ہوتی ہے جس کا پردہ اُٹھ جائے اور جس کا جتنا پردہ اُٹھایا جاتا ہے اُس کو اُتنی خبر دی جاتی ہے اور جس جس کے جتنے پردے اُٹھتے ہیں وہ اُتنا باخبر ہوتا ہے۔ 


جو جتنا باخبر ہو جاتا ہے وہ اُتنا خاموش ہو جاتا ہے اور جس کو جتنی خبر مِلتی ہے وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ:


اگر خاموش رہوں میں تو تُو ہی ہے سب کچھ

جو کچھ کہا تو تیرا حُسن ہو گیا محدود


( اوّلیتِ سورۃ فاتحہ اور اوّلیتِ نُورِ مُحَمَّدی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم،صفحہ ٢٣ تا ٢٥ )


Comments

Popular posts from this blog

شہزادی اور دھوبی کا بیٹا.

کامیاب شوہر