علمائے حق مالداروں سے مرعوب نہیں ہوتے...!!! 


سلطان ملک شاہ سلجوقی اپنے دار السلطنت نیشاپور میں مقیم تھا...اس نے اپنی سلطنت کے مختلف شہروں کے دورے کا پروگرام بنایا...رمضان المبارک کے مقدس مہینے کا آخری عشرہ تھا...اس نے فیصلہ کیا کہ جیسے ہی رمضان ختم ہوگا وہ عید کے فوراً بعد دورے پر نکل جائے گا...رمضان المبارک کی ۲۹ ویں شب تھی...اس نے اپنے وزرا اور مصاحبوں کے ساتھ چاند دیکھنا شروع کیا...خوشامدی مصاحب موجود تھے...انہوں نے شور مچادیا کہ حضور چاند نکل آیاہے...سلطان نے گوخود چاند نہیں دیکھا...اور نہ کسی اور ذمہ دار نے دیکھا...لیکن بادشاہ کی مرضی اور اس کا خیال معلوم کر کے سب نے اس کو رؤیت ہلال کا یقین دلا دیا اور حکم ہوگیا کہ کل عید ہے...امام الحرمین ابوالمعالی جو مفتی اور رئیس القضاۃ تھے...ان کو خبر ہوئی تو انہوں نے منادی کو بلوایا...اور کہا کہ ان الفاظ کے ساتھ منادی کرادو...ابوالمعالی کہتا ہے...کل تک ماہ رمضان ہے...جو میرے فتویٰ پر عمل کرنا چاہتا ہے اسے لازم ہے کہ کل بھی روزہ رکھے...رئیس القضاۃ کی اس منادی کو مفتریوں نے نہایت برے الفاظ میں سلطان تک پہنچایا...بلکہ یہاں تک کہا کہ ابو المعالی کے خیالات سلطنت کے بارے میں اچھے نہیں ہیں...اور عوام ان کے معتقد ہیں...اگر سلطان کے حکم کے مطابق عید نہ ہوئی تو بڑی توہین اور ذلت ہوگی...سلطان طبیعت کا برا نہیں تھا...اس لیے امام الحرمین کی منادی ناگوار گزرنے کے باوجود اس نے حکم دیا...کہ ان کو عزت واحترام کے ساتھ میرے پاس لاؤ...فتنہ پردازوں نے پھر کہا...کہ جو شخص سلطان کے حکم کی عزت نہ کرے...وہ قابل احترام نہیں ہے...سلطان نے کہا:جب تک میں براہِ راست ان سے گفتگو اور حقائق معلوم نہ کرلوں...ایسے رفیع القدر شخص کی عزت میں فرق نہیں آنا چاہیے...قاضی صاحب کو جب شاہی پیغام پہنچا تو اس خیال سے...کہ درباری لباس پہننے سے دیر نہ ہوجائے...اور حاسیدین اللہ جانے دربار میں کس پیرایے میں میری تاخیر بیان کریں...جیسے کپڑے پہنے ہوئے تھے اسی طرح اٹھ کھڑے ہوئے...محل کے دروازے پر دربان نے روکا کہ درباری لباس کے بغیر اندر جانا منع ہے...ادھر حاسیدین نے سلطان کو اطلاع دی کہ امام الحرمین نے پہلے ہی حکم عدولی کی ہے...اب دوسری گستاخی یہ کی ہے کہ معمولی لباس پہن کر آگئے ہیں...سلطان کی طبیعت کچھ اور مکدر ہوگئی، مگر اندر آنے کا حکم دیا...رئیس القضاۃ جیسے ہی دربار میں آئے سلطان نے پوچھا...اس ہیئت کذائی سے آپ کیوں تشریف لائے ہیں...اور درباری کیوں نہیں پہنا...قاضی صاحب نے کہا...اے سلطان...! میں اس وقت جس لباس میں ہوں اسی سے نماز پڑھتاہوں...اور وہ شرعاً جائز ہے...پس جب اللہ کے سامنے میں اسی طرح پیش ہوتا ہوں تو آپ کے سامنے آنے میں کیا قباحت؟ البتہ دستور کے مطابق میرا لباس درباری نہیں ہے...اور اس کی وجہ گستاخی نہیں...بلکہ میں نے سوچا کہ ذراسی دیر کی غفلت میں فرشتے میرا نام نافرمانوں کی فہرست میں نہ لکھ لیں...اور مجھ سے بادشاہ اسلام کے حکم کی مخالفت سرزد نہ ہوجائے...اس لیے جلدی میں جس طرح بیٹھا تھا اسی طرح چلاآیا...سلطان نے کہا: ”جب اسلام میں حاکم کی اطاعت اس قدر واجب ہے...تو پھر ہمارے حکم کے خلاف منادی کرانے کے کیا معنی ہیں؟قاضی صاحب نے فرمایا:جو امور حکم سلطانی پر موقوف ہیں...ان کی اطاعت ہم پر فرض ہے...اور جو حکم فتویٰ کے متعلق ہے وہ بادشاہ ہو یا کوئی اور...اسے مجھ سے پوچھنا چاہیے کیوں کہ بحکم شریعت علما کا فتویٰ حکم شاہی کے برابر ہے...جب سلطان نے امام صاحب کی یہ تقریر سنی تو اس کا غصہ جاتا رہا...اور ان کی جرأت وصداقت سے بہت خوش ہوا اور اعلان کرادیا کہ میرا حکم در حقیقت غلط تھا...اور امام الحرمین ورئیس القضاۃ کا فیصلہ صحیح ہے...آج بھی اگر علمائے کرام بادشاہوں سے مرعوب نہ ہوں اور حق گوئی کو اپنا شعار بنالیں...تو حکمران احترام کرنے پر مجبور ہوجائیں گے...اور اسی طریقے پر عمل ہونے سے آسمان کے نیچے عدل وانصاف اور امن وامان قائم ہوسکتا ہے...!!!

[ نظام الملک طوسی ۱/ ۱۳۳، بحوالہ سنہرے فیصلے: ۲۶ تا ۲۶۲]


Comments

Popular posts from this blog

شہزادی اور دھوبی کا بیٹا.

کامیاب شوہر