📍مردِ حق کی باتیں

 

آج مسجد بیت السلام ڈیفنس حضرت اقدس مولانا عبدالستار صاحب حفظہ اللہ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا 

نشست میں حضرت نے فرمایا 

کہ میں جامعہ فاروقیہ میں تھا تو   22 سو روپے تنخواہ تھی، 

جب اِس مسجد میں آیا تو لوگ گھبرائے ہوئے تھے کہ یہ مولوی پتہ نہیں کیسا ہوگا؟؟؟ 

مجھ سے پوچھا کہ کتنی تنخواہ لیں گے؟ 

میں نے کہا : میں تنخواہ کے لیے نہیں آیا۔۔۔۔۔ کمیٹی والے حیران کہ یہ کیسا مولوی ہے؟؟؟ 

خیر!!!!  ڈھائی ہزار وظیفہ مقرر ہوا۔۔۔ لیکن اب میں فاروقیہ والا وظیفہ کسی اور جگہ دے آتا۔۔۔ 

اِس لیے کہ میرا ڈھائی ہزار میں گزارا ہورہا تھا۔۔۔۔۔۔


 مسکراتے ہوئے فرمایا  ۔۔ بیٹے! کچھ تو ہم میں دنیا والوں سے الگ ہو نا۔۔۔۔ 


کمیٹی کا اگلا مطالبہ یہ تھا کہ بیان کی اجازت نہیں ہوگی، 

اِس پہ میں نے کہا کہ آپ بیس دن کے لیے میرا بیان سن لیں، سمجھ آیا تو ٹھیک ورنہ بیان بند کردیں گے۔۔۔۔ اب منبر پہ بیٹھتا ہوں صفوں کی صفیں پُر ہوتی ہیں الحمدللہ۔۔ 


یہ واقعہ سنا کر فرمایا کہ 

اپنے آپ سے پوچھو کہ اگر وظیفہ، تنخواہ نہ ملی تو کیا میں اللہ کے دین کا کام نہیں کروں گا؟ 

پھر مولوی کیوں بنے؟ 

جب دین کا کام کرنے کا عزم کیا تھا تو کام کرو۔۔۔۔ ضروریات کا انتظام اللہ تمہارے اخلاص کے بقدر کریں گے اور خوب کریں گے۔۔۔۔ 


مزید فرمایا : کہ دینی علوم کے حامل کا یہی تو طرۂ امتیاز ہےکہ اِسے دنیاوی ضروریات کی طرف توجہ نہیں ہوتی، اِس پر حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کا قصہ سنایا کہ جب بوڑھے ہوگئے تو فرمایا تنخواہ میں کٹوتی کردو اب میں جوانی کے دور کی طرح کام نہیں کرسکتا۔۔۔۔ 


فرمایا :اللہ نے اپنے دین کی خدمت کے لیے چن لیا ہے، اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں

اب اگر تنخواہ مل رہی ہے تو یہ انعام خداوندی ہے، اور تنخواہ دینے والے ہمارے محسن ہیں۔۔۔۔ 


سلسلہ گفتگو میں فرمایا 

شکوۂ روپیہ اس لیے پیدا ہوا ہے کہ ہم نے اپنی ڈیوٹی میں خیانت کی ہے، ہم نے اپنی ذات پہ محنت نہیں کی، خود کو امت لیے نفع بخش نہیں بنایا، اس خیانت کا نتیجہ ہے کہ دینی نسبت کی اہمیت اور وقعت کم ہوگئی ہے، 


مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ کے حوالے سے فرمایا کہ اپنی ذات پہ 5 مَن محنت کرو اور مخلوق پہ ایک چھٹانک۔۔۔۔ پھر دیکھو کیسے کام بنے گا۔۔۔۔ 


نام اللہ کا  ، نگاہیں دنیا پہ۔۔ 

دیکھتا کدھر ہے جاتا کدھر ہے۔۔۔۔






Comments

Popular posts from this blog

شہزادی اور دھوبی کا بیٹا.

کامیاب شوہر