مشہور یونانی حساب دان
یونان کے بازار کی طرف ایک لکڑہارا لڑکا لکڑیوں کی گٹھری اٹھائے جا رہا تھا. ایک بزرگ اسے دیکھ رہا تھا.
لڑکے نے جس حسن ترتیب سے لکڑیوں کی گٹھری بنائی تھی اور جس خوبصورتی سے ان کو رسی میں باندھا تھا اس نفاست نے اس بزرگ کو متاثر کیا. اس نے بچے کو آواز دی اور پوچھا یہ لکڑیاں خود باندھی ہیں؟
لڑکے نے کہا جی جناب جنگل میں خود کاٹی ہیں خود باندھی ہیں اور اب بازار میں فروخت کروں گا کہ اسی پر میری گزر بسر ہے. بزرگ نے کہا کیا میرے سامنے اسے کھول کر دوبارہ باندھ سکتے ہو. لڑکے نے کہا کیوں نہیں. گٹھری کھولی دوبارہ اسی حسن ترتیب سے ان کو جوڑا اور رسی سے مہارت سے باندھ لیا. بزرگ نے بچے سے کہا پڑھنا چاہو گے؟
بچے نے کہا ہاں لیکن میرے پاس گنجائش نہیں ہے. بزرگ نے میں تمہیں پڑھاوں گا اور تمہارا خرچ اٹھاوں گا. روایات میں آیا ہے یہ بچہ مشہور یونانی حساب دان و فلسفی فیثا غورث تھا جبکہ بھرے بازار میں اس ہیرے کو پرکھ لینے والا دمقراط تھا. یونانی زبان میں چھوٹے ذرے کو ایٹم کہتے ہیں. دمقراط کہتا تھا دُنیا میں بس ایٹم ہیں یا خلا ہے اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ بس رائے باتیں اور خیالات ہیں.
جو باشعور معاشرے ہوتے ہیں وہ اپنے خلا بہترین طریقے سے بھرنے کی تگ و دود میں رہتے ہیں. جہاں شعور کم ہو وہاں خلا زیادہ ہوتا ہے. لوگ بھی ٹین کے ڈبوں کی طرح ہوتے ہیں. خلا کے خوف میں چند کنکر سمیٹ کر شور مچاتے ہیں. یہی ٹین کے ڈبے بھر جائیں تو خاموش ہو جاتے ہیں. دمقراط جیسے لوگوں کی نگاہیں بازار میں خلا بھرنے کیلئے بہترین نگینے تلاش کرتی ہیں. یعنی آپ اسے ٹیلنٹ ہنٹ سمجھ لیں. جبکہ ہمارے فیثا غورث سارے ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں. خلا بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
Comments
Post a Comment