الله جسے چاہے ہدایت دیتا ہے

 

 الله جسے چاہے ہدایت دیتا ہے

کہانی سنانے والے کہتے ہیں کہ میں جرمنی کے شہر بون کی ایک یونیورسٹی میں ستر کی دہائی میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اس دوران، میرے اپارٹمنٹ کی عمارت میں ایک مصور رہتا تھا۔ 

اس مصور کی عادتیں کافی عجیب تھیں،

 اور جیسا کہ میں سمجھتا ہوں،


 ہر فنکار میں تھوڑا سا جنون پایا جاتا ہے،

 لیکن اس شخص کا جنون کچھ زیادہ ہی تھا۔


وہ اکثر اپنی بالکونی میں مکمل برہنہ کھڑا ہوتا تھا، جب میں یونیورسٹی سے واپس آتا۔ 

یہ منظر مجھے بہت زیادہ ناگوار گزرتا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے اس پر کم توجہ دینا شروع کر دی۔

 تاہم، اندر ہی اندر مجھے اس حرکت سے نفرت محسوس ہوتی تھی، لیکن جرمنی میں آزادی کی حدیں بہت وسیع تھیں، اس لیے میں نے یہ سوچا کہ مجھے ان چیزوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔


ایک دن وہ شخص میرے ساتھ عمارت میں داخل ہوا اور ہمارے درمیان ایک مختصر گفتگو ہوئی، 


جس نے میری اور اس کی زندگی بدل دی۔ "شام بخیر"، اُس نے کہا۔ "شام بخیر"، میں نے جواب دیا۔ "میں آپ کا ہمسایہ ہوں، میرا نام پیٹرک ہے اور میں ایک پیشہ ور مصور ہوں۔ میں نے کئی بار آپ کو دیکھا ہے کہ آپ مجھے ناپسندیدگی سے دیکھتے ہیں۔

 کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے؟"


چونکہ اُس نے خود یہ موضوع چھیڑا،

 میں نے سوچا کہ اسے اپنے دل کی بات بتا دوں۔ میں نے کہا: "جب میں آپ کو برہنہ دیکھتا ہوں اور آپ بالکونی میں سگریٹ پیتے ہیں، تو مجھے بہت برا لگتا ہے۔ 

میں ایک مشرقی شخص ہوں اور ہماری روایات میں یہ چیزیں پسند نہیں کی جاتیں۔"


اُس نے ہنس کر کہا: 

"اس میں کیا برا ہے؟

 ہم سب پیدائشی طور پر برہنہ آتے ہیں، اور یہ کپڑے وغیرہ تو انسان نے ایجاد کیے ہیں تاکہ فطرت کو چھپایا جا سکے۔"


یہ بحث آگے بڑھنے لگی۔ میں نے پوچھا: "تو آپ کے خیال میں ہمیں ہمیشہ برہنہ ہی رہنا چاہیے جیسے ہم پیدا ہوئے؟"


اُس نے کہا: "بالکل، یہ زیادہ بہتر ہے، جیسے باقی مخلوقات ہوتی ہیں۔"


میں نے کہا: "تو پھر سردیوں میں کیا کریں گے؟ کیا آپ بغیر کپڑوں کے رہیں گے اور سردی سے مر جائیں گے؟"


اُس نے جواب دیا: "نہیں، بالکل نہیں۔" پھر میں نے پوچھا: "اور گرمیوں میں؟ کیا آپ بغیر کپڑوں کے رہیں گے اور دھوپ میں جل جائیں گے؟"


اُس نے کہا: "نہیں، ایسا بھی نہیں۔"


میں نے کہا: "تو پھر آپ باقی مخلوقات کی طرح نہیں بن سکتے۔ اللہ نے باقی مخلوقات کو ان کی حفاظت کے لیے کچھ دیا ہے کیونکہ وہ خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتیں، لیکن اللہ نے انسان کو عقل دی تاکہ وہ کپڑے بنا سکے اور خود کو سردی اور گرمی سے بچا سکے۔ یہ وہی بات ہے جو اللہ نے قرآن میں بیان کی ہے۔"


اُس نے حیرانی سے پوچھا: "قرآن؟ یہ کیا ہے؟" یہ اُس کی زندگی میں پہلی بار تھا جب اُس نے قرآن کا نام سنا۔ ایسا لگا جیسے وہ کوئی حیرت انگیز کہانی سن رہا ہو۔


میں نے اُسے اسلام اور قرآن کے بارے میں بتانا شروع کیا، لیکن میری جرمن زبان اتنی اچھی نہیں تھی کہ میں اسے زیادہ تفصیل سے سمجھا سکوں۔


پھر وہ مصور روزانہ میرے آنے کا انتظار کرنے لگا تاکہ میں اُسے اسلام کے بارے میں مزید بتا سکوں۔ اُس میں سیکھنے کی بہت زیادہ خواہش پیدا ہو گئی تھی، جیسے وہ کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہو۔


وہ ایک ملحد تھا، جسے یہ بھی پرواہ نہیں تھی کہ اسے کس نے پیدا کیا اور کیوں؟ لیکن اب وہ سوالات پوچھنے لگا اور جواب جاننے کی کوشش کرنے لگا۔


میں نے اُس کے لیے جرمن زبان سیکھی تاکہ میں اسے بہتر طریقے سے اسلام کا پیغام پہنچا سکوں۔ پھر میں نے عقیدہ، توحید، فقہ اور حدیث کا مطالعہ کیا تاکہ میں اس کے سوالات کے جوابات دے سکوں۔


تین ماہ کے اندر اُس مصور کا حال بدل گیا۔ ایک دن اُس نے مجھے آ کر بتایا کہ اُس نے اسلام قبول کر لیا ہے اور اُس کا نیا نام "یوسف" ہے۔ اُس نے کہا: "آج میں نے اسلام قبول کیا، اور اس کا سارا کریڈٹ اللہ کو اور آپ کو جاتا ہے۔ میں خود کو غرق ہوتے محسوس کر رہا تھا، اور آپ نے مجھے بچا لیا۔"


یہ سن کر میرا دل رک گیا اور میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔


مجھے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث یاد آئی: "اللہ کی قسم، اگر اللہ تمہارے ذریعے ایک شخص کو ہدایت دے دے، تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔"


اس ایک لمحے نے میری زندگی اور اُس مصور کی زندگی بدل دی۔ وہ شخص، جس سے مجھے کبھی نفرت محسوس ہوتی تھی، اب میرا سب سے قریبی دوست بن گیا ہے۔


اور میں نے سچائی پالی کہ "تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے، 

لیکن الله جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔"


حقیقت میں، دین کا اصل حسن اچھے اخلاق اور برتاؤ میں ہے۔

Comments

Popular posts from this blog