"لالچ"


بھائیو، پیسے کا لالچ ایک ایسا جال ہے جس میں آج کا انسان دھڑا دھڑ گرتا چلا جا رہا ہے۔ کچھ سال پہلے کی بات ہے، ہمارے علاقے میں ایک شخص تھا، نام تھا راشد۔ بڑا سمجھدار، بڑا ہونہار اور ایک ہی جنون—پیسہ کمانا۔ جی ہاں! وہ بندہ ہر وقت اسی چکر میں رہتا کہ کیسے اور زیادہ پیسہ کمایا جائے، چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔


راشد کے ساتھ اس کا دوست حارث بھی تھا، جو ہمیشہ اس کی راہنمائی کرتا رہتا۔ حارث سمجھدار اور حقیقت پسند تھا، لیکن راشد کے لالچ نے اسے بھی متاثر کر لیا تھا۔ وہ ہر وقت راشد کو سمجھانے کی کوشش کرتا کہ پیسہ کمانا ضروری ہے، مگر راستہ صحیح ہونا چاہیے۔


یہ جناب ایک دن دفتر میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک بڑی کمپنی سے پیشکش آئی۔ پیشکش ایسی کہ بندہ راتوں رات امیر ہو جائے۔ لیکن بھائی، اس کام میں ایک چھوٹی سی "گڑبڑ" تھی۔ اور وہ گڑبڑ کیا تھی؟ جی، ذرا سا غیر قا_نو_نی کام کرنا تھا۔ اب راشد کا دل کیا کہ کیوں نہ یہ چانس لیا جائے؟ پیسہ جو مل رہا تھا!


پہلے تو ذرا سوچا، پھر ضمیر نے کہا، "چھوڑ یار، یہ بڑا موقع ہے، زندگی سنور جائے گی۔" اور اس دن سے راشد صاحب نے ہر وہ کام کرنا شروع کر دیا جس سے زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جا سکے۔ حارث نے کئی بار اسے سمجھانے کی کوشش کی، "یار راشد، یہ راستہ غلط ہے، اپنے اصولوں سے نہ ہٹ! لیکن راشد تو بس پیسوں کے خوابوں میں گم تھا۔"


بھئی، بس کیا بتاؤں، چند مہینوں میں راشد کی دنیا بدل گئی۔ بڑا سا گھر، نئی گاڑی، پر تعیش زندگی، لیکن اندر کا سکون؟ ہاں، وہ غائب تھا۔ ایک دن تو یوں ہوا کہ بھائی راشد کو رات کو خواب آیا۔ اب خواب کیا تھا؟ ایک بڑا سا چوہے دان، اور اس میں نوٹوں کی گڈی لگی ہوئی، اور راشد صاحب خود اس جال میں پھنسا ہوا۔


خواب میں وہ دیکھ رہا ہے کہ کیسے وہ پیسوں کے جال میں پھنس چکا ہے اور نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن جتنا نکلنے کی کوشش کرتا، اتنا ہی اور پھنستا جاتا۔ 


صبح جب راشد کی آنکھ کھلی تو بھائی، وہ گہرے خیالوں میں غرق تھا۔ دل میں ایک عجیب سی گھبراہٹ تھی اور ماتھے پر پسینے کی بوندیں۔ اس نے فوراً سوچا، "یار، یہ خواب یونہی نہیں آیا۔ یہ تو اللہ کی طرف سے ایک سگنل تھا، ایک تنبیہ کہ بندہ کہاں جا رہا ہے!" 


اگر ابھی سدھر گیا، تو شاید یہ خواب میرے لیے ایک موقع ہے بچنے کا، ورنہ جو خواب میں دیکھا وہ میرا انجام ہو سکتا ہے۔" اس نے دل ہی دل میں کہا، "اللہ کا شکر ہے، وقت پر اشارہ مل گیا، اب اپنے فیصلے بہتر کر کے زندگی سنوارنی ہے!"


بس بھائی، یہی تھا وہ لمحہ جس نے راشد کو بدل دیا، اور اس کے بعد وہ دیانت داری کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے لگا۔ اس نے حارث سے بھی معذرت کی اور کہا، "یار، میں نے تیری بات نہیں سنی، اب میں صحیح راستے پر چلوں گا!"


یہ کہانی ایک سبق ہے کہ دولت کی ہوس انسان کو نہ صرف اخلاقی طور پر بلکہ روحانی طور پر بھی تباہ کر دیتی ہے۔ راشد نے اپنی غلطیوں سے سیکھا اور اب وہ اپنی زندگی میں خوشی اور سکون کے ساتھ جینے لگا۔

Comments

Popular posts from this blog