یہ سب بتانے کا مقصد کیا ہے؟
ننھے بچوں کو مہنگے کھلونوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ آپ اسے مہنگی گاڑی دلواتے ہیں، اسے پلاسٹک کی بوتل میں سکہ ڈال کر کھیلنا ہے۔ آپ اس کے لئے بیٹری سے چلنے والی کیا کیا انوکھی چیزیں لا رہے ہیں، اور اس کے قہقہے تب چھوٹتے ہیں جب آپ اسے ہوا میں اچھالتے ہیں۔ آپ رنگ برنگ چیزوں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں، اور اس کی فرمائش یہ ہے کہ آپ اس کے ساتھ pillow fight کریں۔
بچوں کو آپ جو کچھ بھی لا دیں وہ بس کچھ دیر اسے توجہ دے گا، پھر وہ چیز اس کے دل سے اتر جائے گی۔ ہاں، اگر اسے واقعی کچھ چاہئے تو وہ آپ کا وقت اور توجہ ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ اس طرف دھیان کم ہی جاتا ہے۔ اپنے بچپن کی محرومیوں کا ازالہ یوں کیا جاتا ہے کہ اولاد کے سامنے مادی اشیا کا ڈھیر لگا دیا جائے۔ جو جتنا افورڈ کر سکتا ہے، اتنا ہی خرچہ اولاد پر کیے چلے جا رہا ہے۔ کیا وہ سب کچھ بچے کو چاہیے؟ نہیں! یہ آپ کی اپنی خواہش ہے۔اپنے انر چائلڈ کی تسکین۔ اپنی محرومی کا ازالہ۔
میں کئی بار سوچتی ہوں کہ بچے کی پیدائش سے پہلے پوری نرسری کیوں سجائی جاتی ہے؟ تھیم کے مطابق کمرہ کیوں ڈیکوریٹ کیا جاتا ہے؟ بچے کی پہلے دوسری سالگرہ اتنی دھوم دھام سے کیوں منائی جاتی ہے؟ وہ تو بیچارہ لوگوں کا ہجوم دیکھ کر پریشان ہی ہوتا ہے۔ اسے تو کوئی دلچسپی نہیں زرق برق کپڑوں میں، اتنے شور شرابے میں، مہنگے کیک میں، حتی کہ ان ڈھیر کھلونوں میں جن سے چند بار کھیل کر اکتا جائے گا۔ تو پھر اتنا خرچہ کیوں کیا جاتا ہے؟ اپنے اندر کا خلا بھرنے کے لئے، اپنی ناک اونچی کرنے کے لئے، اپنے آپ کو بہلانے کے لئے۔۔
یہ سب بتانے کا مقصد کیا ہے؟
بس اتنا کہ بچے کو چیزیں نہیں، آپ چاہییں۔ آپ کا وقت، توجہ، محبت۔ آپ کے ساتھ کھیلنا، ہنسنا، شرارتیں، لاڈ۔
جتنا وافر یہ سب کچھ آپ بچے کو اس کے بچپن میں دیں گے، اتنا آپ کا اس سے تعلق بنے گا۔ ایک بار بچے جب ٹین ایج میں داخل ہو جائیں تو صورتحال الٹ جاتی ہے۔ اب ہمیں ان سے وقت، توجہ، محبت چاہیے اور وہ ہم سے فاصلہ چاہتے ہیں۔
ان کے بچپن کے یہ لمحات بہت قیمتی ہیں۔ اسے ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ میں ضائع نہ کریں۔ ماؤں کو کسی وقت غصہ آنا فطری ہے، ہفتے میں ایک آدھ بار لیکن ہر روز ہی، ہر بات پر ہی بھڑکتے رہنا بچوں کو دلی طور پر آپ سے دور کرتا جائے گا۔ والد صاحبان کی تو کہانی ہی الگ ہے۔ انہوں نے خود کو بس مادی اشیا تک وقف کر رکھا ہے۔ بچے بھی پھر باپ کو اے ٹی ایم کارڈ کی طرح ہی ٹریٹ کرتے ہیں۔ اتنا ہی تعلق رکھتے ہیں کہ اب یہ چاہیے، اب وہ چاہیے۔ اپنی الجھنیں کہنے وہ کبھی نہیں آتے۔
جن کے بچے بڑے ہو چکے تھے، وہ ہم سے کہا کرتے کہ بچے کا بچپن خوب انجوائے کر لو، بچے بہت جلدی بڑے ہو جاتے ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔ پلک جھپکتے میں یہ کچھ سال گزر جاتے ہیں۔ پیچھے بس یادیں رہ جاتی ہیں۔
کیوں نہ اچھی یادیں بنا لی جائیں، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے!
Comments
Post a Comment