باغبانی

 


مارے گاؤں میں ایک بزرگ ہوا کرتے تھے۔۔۔ ان کا مشغلہ اخری عمر تک باغبانی رہا۔۔ آخیر تک درختوں کے ساتھ اپنی محبت کو نبھاتے رہے۔۔     جب بھی کوئی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا وہ نہایت عاجزی اور محبت کے ساتھ پیش آتے، میں نے ایک دن عرض کیا،  حضرت : " ہم جب بھی آپ سے ملتے ہیں آپ کا حسن اخلاق اور اعلی ظرفی ہمیں بہت متاثر کرتی ہے، آپ کو جاننے والا ہر ایک آپ کی اس خصوصیت سے متاثر ہوتا ہے۔۔ آپ کو یہ نعمت کہاں سے نصیب ہوئی؟" ؛  فرمانے لگے "بیٹا میں نے ساری عمر درختوں کے ساتھ گزار دی ، میں نے جب بھی دیکھا پھل دار درختوں کو جھکے ہوئے دیکھا۔" مجھے ان درختوں سے پتہ چلا  "قدرت جب بھی کسی کو نوازتی ہے تو اسکے اندر جھکاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔۔ ، اس کو اپنی تواضع ، کمزور حیثیت اور بےمائیگی کا احساس ہونے لگتا ہے، وہ لوگوں سے خلوص، محبت اور عزت سے پیش آتا ہے جبکہ۔                         میں نے ہمیشہ پھل سے محروم درختوں کی شاخوں اور ٹہنیوں کو اکڑو اور اوپر اٹھے دیکھا ہے، یہ لوگوں سے بھی محروم رہتے ہیں اور انھیں قدرت کا انعام بھی نصیب نہ ہوتا ، چنانچہ اس کے بعد میں نے یہ بات پلے باندھ لی : قدرت جب بھی نوازے گی وہ ہمیشہ جھکے اور عاجز انسان کو ہی نوازے گی اور جس شخص نے اکڑ ، غیض و غضب اور غرور کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا اسے پھل دار درخت سے بے پھل درخت میں بدلتے زیادہ دیر نہیں لگتی...                              اللهم احفظنا منھم

Comments

Popular posts from this blog