تربیت کا ثمر 

اُٹھنے بیٹھنے ملنے جلنے بات کرنے کے انداز درست کرنے  پر کہتے کہتے تھک جاتیں تھیں لیکن وہ سنتا نہ تھا ۔ 

 اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک ہر بات دس دفعہ یاد دلانی پڑتی ۔ 

اُس کی لاپرواہی کی اس عادت سے کبھی کبھی وہ عاجز آجاتیں ۔ نہ اماں کی سنتا ہے نہ ابا کی بات پر کان دھرتا ہے یہ لڑکا پتا نہیں کیسے گزرے گی اِس کی ۔ بس کوشش کرتیں اُس کے پیچھے پیچھے دعائیں کرتی رہیں ۔ اُن کی نصیحتوں پر اکثر پیر پٹختا ہوا دروازہ دھاڑ سے بند کرتے جاتا اور کبھی کبھی اُن کی بس ہوجاتی ۔ یا اللہ اولاد کو پالنا اور پھر ان کے یہ نخرے اور اُترتے چڑھتے مزاج برداشت کرنا آسان تو نہیں ۔ بڑے چاو سے نام عبدالرحمن رکھا تھا لیکن نام کے الٹ ہی نظر آیا ہمیشہ ۔


وقت کیسے گزرا اور کب اُس کا کینیڈا  کا ویزا لگا اور وہ اپنی یادیں چھوڑ کر روانہ ہوگیا پتا ہی نہیں چلا ۔ اب فون پر رابطہ رہتا ۔ سنجیدہ سا محسوس ہوتا تھا لیکن انداز وہی تھے بے نیازی والے ۔بس اب اُلجھتانہ تھا۔اگلے سال آیا تو شادی کا پکا ارادہ کر چکی تھیں اور انتظام بھی اور واپس گیا تو اپنے ساتھ پیاری سی ایک دلہن بھی لے گیا۔ پھر اب تو پیارے پیارے دو بیٹوں کا ابا بھی بن گیا تھا اُن کا پیارا بیٹا جس نے اُنہیں تنگ کرنے میں کوئ کسر نہ چھوڑی تھی ۔ فون پر اکثر بات رہتی لیکن اتفاق رہا کہ پچھلے تین سال سے نہیں آ سکا ۔

اب چھ مہینے سے پیچھے پڑا ہوا تھا کہ آپ دونوں ہمارے پاس آکر رہیں ۔ وہ دونوں ہی اپنا گھر چھوڑ لر جانا نہ چاہتے تھے ۔ نیا دیس اور پھر دل میں دبا دبا ڈر بھی رہتا کہ کہیں بیٹے کی اکڑفوں کے مظاہرے اگر بہو کے سامنے شروع ہوگۓ تو بہو کے سامنے کیا عزت رہے گی ۔ اکثر سوچتیں کہ پتا نہیں کیا کمی کی میں نے تربیت میں نجانے کیوں ایسے مزاج کا تھا وہ ۔ اب اپنے بچوں کے لیے کیا نمونہ پیش کرتا ہوگا ۔


اصرار بڑھا تو ویزا لگوانے کی کوشش شروع ہوئ ۔ جلد ہی غیر متوقع طور پر ویزا بھی لگ گیا اور ٹکٹ بھی بھیج دیے اُس نے ۔بہت سے تحفوں سے سوٹ کیس بھر کر دونوں روانہ ہوۓ ۔ پوتوں سے ملنے کی تڑپ زیادہ تھی۔ انہوں نے سوچا تھا جتنے دن رہیں گی پوتوں کے حوالے سے بیٹا بہو کو ضرور سمجھائیں سکھائیں گی کہ تربیت پر توجہ دو ۔ چلو ہماری تربیت میں کمی تھی لیکن اب ہمارے پوتے تو اچھے مزاج و اخلاق لے کر بڑے ہوں ۔ 


ائیرپورٹ پر موجود بیٹا بھی بہو اور دونوں چھوٹے خرگوش بھی۔ 

اولاد کی اولاد بھی کیا نعمت ہے اللہ کی ۔ 

راستے بھر دونوں بچے بولتے رہے اور سب خوش ہوتے رہے ۔

گھر پہنچتے ہوے نیند سے برا حال تھا اس لیے کھانا کھا کر فورا ہی سونے لیٹ گۓ۔ 

“بیٹے  دادا دادی تھکے ہوۓ ہیں کوئ شور نہیں کرے گا ۔

نیم غنودگی میں جاتے جاتے  اپنے دل کے ٹکڑے کی آواز اُن کے کان میں آئ ۔اُس کے خیال رکھنے سے أنکھیں نم سے ہوئیں اور وہ کب سو گئیں پتا نہیں چلا ۔ 

اگلے دن آنکھ تلاوت کی آواز سے کھلی ۔بمشکل آنکھیں کھولتے ہوۓ انہوں نے دھیان سے سنا ۔انتہائ خوبصورت تلاوت کہ دونوں میں سے کوئ خود کو اٹھنے سے نہ روک سکا۔

آپ وضو پہلے کر آئیں پھر میں جاتی ہوں انہوں نے اپنے شوہر سے کہا ۔ 

یہ تلاوت عبدالرحمن کی ہی ہے نا ؟ انہوں نے غیر یقینی کیفیت میں تصدیق چاہی ۔ 

وہ وضو کے لیے گۓ تو وہ اٹھ کر کمرے سے باہر آئیں ۔ 

سامنے ہی بیٹھ کر وہ غالبا کوئ سورہ یاد کر رہا تھا ۔ آنکھیں بند تھیں اور ایک آیت بار بار دہرا رہا تھا ۔ 

یہ عبدالرحمن ہی ہے ۔ آہستگی  سے جاکر اُس کے قریب بیٹھ گئیں ۔

وہ چونکا ارے آپ کب اُٹھیں امی ابھی اور سو لیتیں ۔ ابو اٹھ گے کیا ؟ اور آپ رو کیوں رہی ہیں کیا ہوا ؟ وہ گھبرا کر ان کے قریب آیا ۔

انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو کیوں نکلے ۔ 

ماں کی گود میں بچہ اور وہ بھی پہلا بیٹا آۓ تو اُس سے کیسی محبت ہوتی ہے یہ کوئ ماں کے دل سے پوچھے ۔ اُس کی خوشبو اور اُس کی زندگی کا ہر پہلا قدم کیسے دل پر اثر ڈالتا ہے ۔ اور پھر جوان توانا اُس کی شخصیت کی مضبوطی ماں باپ کو دل ہی دل میں خوشی کے ساتھ سہماتی بھی ہے ۔سدھار اور بگاڑ کے مناظر دکھاتی جوان اولاد خدشوں میں مبتلا کرتی ہے ۔پتا نہیں ہماری آغوش سے نکل کر یہ عملی زندگی میں ثابت قدم کیسے رہیں گے ۔

کچھ نہیں بیٹا بس تمہاری تلاوت ہی اتنی پیاری تھی کہ دل بھر آیا ۔ 

امی کچھ دن پہلے حفظ شروع کیا ہے ۔ آپ کتنا کہتی تھیں نا اب سوچ کر شرمندگی ہوتی ہے کہ اُس وقت آپ کی بات سنتا تو اب تک مکمل ہوچکا ہوتا لیکن اب ایان کے قاری صاحب گھر آتے تو اُن کے ساتھ میں نے بھی پڑھنا شروع کردیا ۔ 


اُن کا دل پھر لرزا ماضی کی کچھ آوازوں کی بازگشت سی تھی ( کیا کروں کیسے اسے نمازیں پڑھواوں نہ قرآن کھولتا ہے نہ نماز ۔پتا نہیں کیا آزمائش ہے پہلی اولاد بھی )


آپ کے اور ابو کے لیے چاۓ بنادوں ؟ نماز پڑھ کر وہیں کمرے میں لا دیتا ہوں ۔ سکینہ تو رات تھک کر سوئ تھی کچھ دیر میں اٹھ کر ناشتہ بناۓ گی پھر مل کر کریں گے ۔ آج کل بچوں کو اسکول چھوڑنے جاتا ہوں تو واپسی پر پڑوس کی ایک عمر رسیدہ خاتون ہیں اُن کے لیے گراسری بھی کر آتا ہوں ۔

وہ چپ سی ہوکر دیکھے گئیں ۔ یہ وہی لڑکا ہے جو کوئ ایک کام زمہ داری سے نہ کرتا تھا ۔ کسی کا خیال رکھنا تو درکنار خود پر بھی مشکل سے توجہ دیتا ۔ 

آج صاف ستھرا سا سلیقے سے بات کرتا خیال رکھتا یہ کیسے میرے دل میں اُترا  جاتا ہے ۔

وہ چاۓ کے لیے حامی بھر کر اور نماز کا کہہ کر اٹھ آئیں ۔ 

فجر پڑھ کر آج وہ دعا کے لیے ہاتھ پھیلاۓ شرمندہ سی تھیں ۔

معاف کر دیجیے مالک 

آپ دعا بھی سنتے ہیں اور پوری بھی کرتے ہیں 

آپ دلوں کو بھی بدلتے ہیں اور ان میں نرمی بھی ڈالتے ہیں 

جلد باز تو ہم ہیں 

فورا مانگ کر فورا پورا ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ 

یہ نعمتیں اور رحمتیں جو آپ ہمیں دیتے ہیں ان کے لئے ہماری توقعات اور وہ نہ پوری ہوں تو بے صبری ناشکری میں بدل جاتی ہیں

 اور ہم بھول جاتے ہیں کہ اچھے اثرات ، ہماری نصیحتیں اور ہماری دعائیں کہیں نہ کہیں ان کے لاشعور کی دنیا بدل رہی ہیں ۔

 اور وقت آنے پر اثر دکھائیں گی ۔

 معاف کردیجے مالک اور ہمیں شکر کرنے والا ، امید رکھنے والا اور یقین رکھنے والا بنائیے ۔

Comments

Popular posts from this blog