سیرت النبی


سیرت النبی   






*قریش مکہ کو جب حضرت ابو طالب کی طرف سے کوئی امید نہ رہی تو ان کے غیض و غضب میں اور اضافہ ہوا اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کو تکلیف دینے اور ستانے کی مہم مذید تیز کردی گئی کہ شائد مصیبتوں اور تکلیفوں سے تنگ آ کر آپ ﷺ اپنے کام سے باز آ جائیں لیکن*

*آپ ﷺ کے عزم اور استقلال کے سامنے قریش مکہ کی ساری کوششیں بے فائدہ ثابت ہوئیں اور آپ ﷺ ثابت قدمی سے اپنے مشن پر کام کرتے رہے..*


*کفّار حضور ﷺ کی راہ میں کانٹے بچھاتے , نماز پڑھتے وقت جسمِ مبارک پر نجاست ڈال دیتے تھے.. ایک دفعہ آپ ﷺ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے آپ کے گلے میں چادر لپیٹ کر اس زور سے کھینچاکہ آپ گھٹنوں کے بل گرپڑے.. اتفاقاً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گذر ہوا.. پیچھے سے آکر اس کے شانے کو پکڑ لیا اور دھکا دے کر چادر کے بل کھول دئیے..*


*عقبہ بن ابی معیط کا اصل نام ابّان بن ابی عمرو بن اُمیہ بن عبدالشمس تھا.. یہ حضور ﷺ کا ایک دیوار بیچ پڑوسی تھا لیکن اسلام دشمنی میں حد سے بڑھ گیا تھا.. حضور ﷺ فرمایا کرتے کہ میں دو بدترین پڑوسیوں کے درمیان میں رہتا تھا.. ایک ابولہب اور دوسرا عقبہ.. یہ دونوں حضور ﷺ کے گھر میں گندگی پھینکا کرتے.. ایک روز حضورﷺ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے کے عقبہ بن ابی معیط آیا.. ابو جہل بھی صحن کعبہ میں دوسرے سرداروں کے ساتھ موجود تھا.. عقبہ سے کہا کہ اونٹ کی تازہ اوجھڑی جو وہاں پڑی ہوئی تھی , لاکر حضور ﷺ کی گردن پر رکھ دے.. چنانچہ عین حالتِ سجدہ میں اس نے اوجھڑی حضور ﷺ کی گردن پر رکھ دی جس کے وزن سے حضور سر نہ اٹھا سکے اور کفّار قہقہے لگانے لگے.. کسی نے گھر پر اطلاع کردی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا دوڑی آئیں اور اس بوجھ کو ہٹایا..*


*حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ غلام اور مجبور آدمی تھے اس لئے حضور ﷺ کی مدد نہ کرسکے.. اہانت نماز کی وجہ سے حضور ﷺ نے نام بنام بد دعا دی جن میں ابو جہل بن ہشام , عتبہ بن ربیعہ , شیبہ بن ربیعہ , ولید بن عتبہ , عقبہ بن ابی معیط , اُبیّ بن خلف , عمّار بن ولید شامل تھے اور جن جن کو آپ نے بد دعا دی وہ بدر کے دن قتل ہوئے.*


*قریش متحیر تھے کہ آپﷺ یہ سب اذیتیں کیوں برداشت کرتے ہیں.. کہیں اس کا مقصد جاہ و دولت اور نام و نمود کی خواہش تو نہیں..؟ عُتبہ بن ربیعہ نے جو سردارِ قوم تھا , ایک روز قریش کی محفل میں کہا.. "قریش کے لوگو ! کیوں نہ میں محمد (ﷺ) کے پاس جا کر ان سے گفتگو کروں اور ان کے سامنے چند امور پیش کروں.. ہوسکتا ہے وہ کوئی چیز قبول کر لے.. تو جو کچھ وہ قبول کرلیں گے اسے دے کر ہم انہیں اپنے آپ سے باز رکھیں گے..*


*اس وقت رسول اللہ ﷺ مسجد حرام میں ایک جگہ تن تنہا تشریف فرما تھے..*

*مشرکین نے کہا.. "ابو الولید ! آپ جایئے اور ان سے بات کیجیے.." اسی خیال کے تحت عتبہ بن ربیعہ قریش کی طرف سے حضور اکرم ﷺکے پاس بات چیت کے لئے آیا اور بولا..*

"بھتیجے ! ہماری قوم میں تمہارا جو مرتبہ ومقام ہے اور جو بلند پایہ نسب ہے وہ تمہیں معلوم ہی ہے اور اب تم اپنی قوم میں ایک بڑا معاملہ لے کر آئے ہو جس کی وجہ سے تم نے ان کی جماعت میں تفرقہ ڈال دیا ہے.. ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار قرار دیا , ان کے معبودوں اور ان کے دین پر عیب چینی کی اور ان کے جو آباء و اجداد گزر چکے ہیں انہیں کافر ٹھہرایا.. لہٰذا میری بات سنو ! میں تم پر چند باتیں پیش کررہا ہوں ان پر غور کرو.. ہوسکتا ہے کوئی بات قبول کرلو*


*رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.. "ابو الولید کہو ! میں سنونگا.."

عتبہ نے کہا.. "بھتیجے ! یہ* *معاملہ جسے تم لے کر آئے ہو اگر اس سے تم یہ چاہتے ہو کہ مال حاصل کرو تو ہم تمہارے لئے اتنا مال جمع کئے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے مالدار ہوجاؤ.. اور اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اعزاز و مرتبہ حاصل کرو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنائے لیتے ہیں.. یہاں تک کہ تمہارے بغیر کسی معاملہ کا فیصلہ نہ کریں گے..

 اور اگر تم چاہتے ہو کہ کسی بڑے گھرانے میں شادی ہو جائے تو جہاں کہو کرا دیتے ہیں.. اور اگر تم چاہتے ہو کہ بادشاہ بن جاؤ تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنائے لیتے ہیں.. اور اگر یہ جو تمہارے پاس آتا ہے کوئی جن بھوت ہے جسے تم دیکھتے ہو لیکن اپنے آپ سے دفع نہیں کر سکتے تو ہم تمہارے لئے اس کا علاج تلاش کئے دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم اپنا مال خرچ کر نے کو تیار ہیں کہ تم شفایاب ہو جاؤ.. کیونکہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جن بھوت انسان پر غالب آجاتا ہے اور اس کا علاج کروانا پڑتا ہے..*


*عتبہ یہ باتیں کہتا رہا اور رسول اللہ ﷺ سنتے رہے.. جب فارغ ہوچکا تو آپ ﷺ نے فرمایا.. "ابو الولید ! تم فارغ ہوگئے..؟" اس نے کہا.. "ہاں !*

*آپ ﷺ نے فرمایا.. "اچھا اب میری سنو.." اس نے کہا.. "ٹھیک ہے.. سنونگا.." آپ نے سورۂ حٰم سجدہ کی مندرجہ ذیل آیات پڑھیں*

*حم.. یہ رحمن ورحیم کی طرف سے نازل کی ہوئی ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں کھول کھول کر بیان کر دی گئی ہیں.. عربی قرآن ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں.. بشارت دینے والا , ڈرانے والا.. لیکن اکثر لوگوں نے اعراض کیا اور وہ سنتے نہیں.. کہتے ہیں کہ جس چیز کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو اس کے لئے ہمارے دلوں پر پردہ پڑا ہوا ہے.. الخ'' (۴۱: ۱ تا ۵)*


*عتبہ چپ چاپ سنتا رہا.. جب آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے اس قول پر پہنچے*

*پس اگر وہ روگردانی کریں تو تم کہہ دو کہ میں تمہیں عادو ثمود کی کڑک جیسی ایک کڑک کے خطرے سے آگاہ کر رہا* ہوں.." (۴۱: ۱۳)


*تو عتبہ تھرا کر کھڑا ہوگیا اور یہ کہتے ہوئے اپنا ہاتھ رسول اللہ ﷺکے منہ پر رکھ دیا کہ میں آپ کو اللہ کا اور قرابت کا واسطہ دیتا ہوں (کہ ایسا نہ کریں).. اسے خطرہ تھا کہ کہیں یہ ڈراوا آن نہ پڑے.. اس کے بعد عتبہ اٹھا اور سیدھا اپنے ساتھیوں کے پاس آیا*


*اسے آتا دیکھ کر مشرکین نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا.. "اللہ کی قسم ! ابو الولید تمہارے پاس وہ چہرہ لے کر نہیں آ رہا ہے جو چہرہ لے کر گیا تھا.." پھر جب وہ آکر بیٹھ گیا تو لوگوں نے پوچھا.. "ابوالولید ! پیچھے کی کیا خبر ہے.*


*اس نے کہا.. "پیچھے کی خبر یہ ہے کہ میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس جیسا کلام واللہ ! میں نے کبھی نہیں سنا.. اللہ کی قسم ! وہ نہ شعر ہے نہ جادو نہ کہانت.. قریش کے لوگو ! میری بات مانو اور اس معاملے کو مجھ پر چھوڑ دو.. (میری رائے یہ ہے کہ ) اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ کر الگ تھلگ بیٹھ رہو.. اللہ کی قسم ! میں نے اس کا جو قول سنا ہے اس سے کوئی زبردست واقعہ رونما ہو کر رہے گا.. پھر اگر اس شخص کو عرب نے مار ڈالا تو تمہارا کام* *دوسروں کے ذریعے انجام پاجائے گا اور اگر یہ شخص عرب پر غالب آگیا تو اس کی بادشاہت تمہاری بادشاہت اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور اس کا وجود سب سے بڑھ کر تمہارے لئے سعادت کا باعث ہوگا..*


*لوگوں نے کہا.. "ابو الولید ! اللہ کی قسم ! تم پر بھی اس کی زبان کا جادو چل گیا..*

عتبہ نے کہا.. "اس شخص کے بارے میں میری رائے یہی ہے.. اب تمہیں جو ٹھیک معلوم ہو , کرو.*

*لیکن قریش نے یہ رائے منظور نہیں کی.. حضور اکرم ﷺ کی طرف سے دعوت و تبلیغ جاری رہی اور کفّار نے ایذا رسانی میں مذید شدت پیدا کردی

Comments

Popular posts from this blog

شہزادی اور دھوبی کا بیٹا.

کامیاب شوہر