*مہمان کے دسترخوان پر ڈنڈا __؟؟.


.* 


کہتے ہیں کہ کسی دور افتادہ دیہات میں ایک معزز مہمان آیا ۔ بڑی آؤ بھگت ہوئی ۔ گاؤں کا گاؤں اُس کے سامنے بچھا جا رہا تھا ۔ کھانے کا وقت آیا تو انواع و اقسام کی نعمتیں اُس کے سامنے دستر خوان پر لا کر رکھ دی گئیں ۔ ساتھ ہی ایک بڑی سی سینی میں ایک لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بھی لا کر رکھ دیا گیا۔ مہمان نعمتیں دیکھ کر تو

خوش ہوا مگر ڈنڈا دیکھ کر ڈر گیا ۔ سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا :


آپ لوگ یہ ڈنڈا کس لیے لائے ہیں ؟“


میز بان نے کہا :

بس یہ ہماری روایت ہے ۔ بزرگوں کے زمانے سے چلی آرہی ہے ۔ مہمان آتا ہے تو اُس کے آگے کھانے کے ساتھ ساتھ ڈنڈا بھی رکھ دیتے ہیں۔ مہمان کی تسلی نہ ہوئی ۔ اُسے خوف ہوا کہ کہیں یہ تمام ضیافت کے بعد ڈنڈے


سے ضیافت نہ کی جاۓ۔

اُس نے پھر تفتیش کی :


پھر بھی اس کا کچھ تو مقصد ہوگا ۔ کچھ تو استعمال ہوگا ۔ آخر صرف مہمان کے آگے ہی ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے ؟“۔


میزبانوں میں سے ایک نے کہا :


اے معزز مہمان ! ہمیں نہ مقصد معلوم ہے نہ استعمال ۔ بس یہ بزرگوں سے چلی آنے والی ایک رسم ہے ۔ آپ بے خطر کھانا کھائیے “ ۔


مہمان نے دل میں سوچا : " بے خطر کیسے کھاؤں ؟ خطرہ تو سامنے ہی رکھا ہوا ہے“۔


پھر اس نے اعلان کر دیا : " جب تک آپ لوگ یہ نہیں بتائیں گے کہ آپ کے یہاں بزرگوں کے زمانے سے مہمان کے دستر خوان پر ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے ، 

کیڑے کو پتھر میں رزق پہنچانے والے کی قسم ! میں آپ کا ایک لقمہ بھی نہیں کھاؤں گا اب تو پورے گاؤں میں کھلبلی مچ گئی کہ مہمان نے کھانے سے انکار کر دیا ہے ۔ گاؤں کے ایک بزرگ بلائے گئے ۔ انہوں نے سارا ماجرا سنا اور دستر خوان پر رکھا ہوا ڈنڈا دیکھا تو برس پڑے : ارے کم بختو ! تم نے اتنا بڑا ڈنڈا لا کر رکھ دیا؟ اسے کم کرو۔ ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے اتنا بڑا ڈنڈا نہیں رکھتے تھے ۔ ڈنڈا فی الفور آری سے کاٹ کر دو تین فٹ کم کر دیا گیا ۔ مگر مہمان پھر بھی مطمئن نہیں ہوا۔ اسے اپنے سوال کا جواب درکار تھا ۔ اب ایک نسبتاً زیادہ بزرگ بلائے گئے ۔ انہوں نے بھی سارا ماجرا سنا ۔ انہوں نے بھی ڈنڈا ناپ کر دیکھا ۔ اورانہوں نے بھی اعتراض کیا : ڈنڈا اب بھی بڑا ہے ۔ ہمارے بزرگ تو مہمانوں کے آگے ایک چھوٹی سی پتلی سی ڈنڈی رکھا کرتے تھے ۔


مذکورہ بزرگ کے کہنے پر باقی ماندہ ڈنڈا کاٹ کر اور چھیل کر ایک چھوٹی سی ڈنڈی بنا دیا گیا ۔ گو کہ اب ڈنڈے کا سائز اور جسامت خطرے سے باہر ہو گئی تھی، مگر مہمان کا تجس برقرار رہا۔ اب تک آنے والے بزرگوں نے صرف سائز اور خطرات ہی کم کیے تھے ۔ اس کا استعمال اور اس کا مقصد کوئی نہ بتا سکا تھا۔


مہمان اب بھی کھانا کھانے پر تیار نہ ہوا۔ اب ڈھونڈ ڈھانڈ کر گاؤں کا ایک ایسا بزرگ ڈھونڈ کر ڈولی کر کے لایا گیا جس کے سر کے بال ہی نہیں بھنویں تک سفید ہو چکی تھیں ۔ محتاط سے محتاط اندازے کے مطابق بھی بزرگ کی عمر ۹۹ سال

سے کم نہ ہوگی ۔ سنائی بھی کم دیتا تھا ۔ جب انھیں ڈنڈے کی شکل و صورت اور اس کا سائز تفصیل سے بتایا گیا تو وہ بھڑک کر اپنی لاٹھی ڈھونڈنے لگے ۔ چیخ کر بولے : ” ارے عقل کے اندھو! ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے ایک چھوٹی سی پیالی میں ایک ننھا منا سا تنکا رکھا کرتے تھے ، تاکہ اگر مہمان کے دانتوں کی رینوں میں گوشت کا کوئی ریزہ پھنس جائے تو وہ خلال کر کے اسے نکال باہر کرے۔


 زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی نئی بات، کوئی بدعت ، شروع تو خلال کے تنکے ہی سے ہوتی ہے ، مگر پھر اس کے پیرو کار اسے بڑھا کر لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بنا دیتے ہیں اور اس پر بھی مطمئن نہیں ہوتے۔

Comments

Popular posts from this blog

شہزادی اور دھوبی کا بیٹا.

کامیاب شوہر