لوگ کہتے ہے مجاہد بننا آسان ہے
لوگ کہتے ہے مجاہد بننا آسان ہے
کبھی ان مجاھد کے گھر والوں سے پوچھیے گا
کہ مجاھد کیسے بنتے ہیں
کیسے ان کے گھر کے لوگ ان کے جانے بعد زندگی گزار رہے ہوتے ہیں
مجاھد کبھی والد کی صورت میں ہوتا ہے
تو
کبھی عزیز از جان بیٹے کی صورت میں
کبھی بہنوں کا لاڈلا بھائی
کبھی بھائیوں کا جان سے پیارا بھائی
کبھی بیٹیوں کا مشفق سہارا
اور کبھی دنیا کی تنہائیوں سے لڑتی اولادوں کو پالتی ہوئی اس عظیم عورت کے سر کا تاج ہوتا ہے
جو بھری دنیا میں سب کے ہوتے ہوئے تنہا زندگی گزار رہی ہوتی ہے
اس مرد مجاہد کی اولاد کو بیک وقت ماں اور باپ دنوں کا پیار دیتی ہیں
جہاں باپ کی ضرورت ہو تو یہ اس مرد مجاھد کی بیوی ایک سائبان کی طرح اپنے بچوں پر سایہ فگن ہوجاتی ہے
اسے دنیا کی ہر سرد و گرم سے بچاتی ہے
جہاں ماں کی ضرورت ہو تو اپنی تمام تر ممتا اپنے بچوں پر نچھاور کر دیتی ہے
ہمیں میدان میں لڑتے ہوئے مجاھد تو نظر آتے ہیں
لیکن کیا ہم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے
کہ ان مجاھدین کی گھر والوں کی کیسی عجیب قربانیاں ہیں کہ اپنے سہاگ کو امت پر قربان کر دیتی ہے
اور خود سردیوں کی لمبی راتوں کو تن تنہا گزار دیتی ہے
لیکن امت مسلمہ کی ماؤں بیٹیوں کو اپنا سب کچھ دان دیتی ہے
گرمیوں کی لمبی دوپہر بیتی یادوں میں بتا دیتی ہے
لیکن منہ سے کسی کے سامنے اف تک نہیں نکالتی
برسات کے موسم میں آسماں سے برستی بارش
اور آنکھوں سے برستی بارش یکجا ہوجاتی ہیں
تو اپنا درد دل ہلکا کر دیتی ہے
لیکن سلام ہے ان عظیم عورتوں پر کہ ان منہ سے شکوہ تک نہیں نکلتا
ان کے بچے کسی چیز کے لئے ضد کریں
تو ان کو سمجھا بجھا کر تسلیاں دیکر جنت کے وعدے کر کے سلا دیتی ہے
اور خود پوری رات کروٹیں بدل کر جاگتے ہوئے گزار دیتی ہے
ہمیں اسلاف کی مائیں تو نظر آتی ہیں
لیکن افسوس کہ ہمیں اپنے ارد گرد غرباء کے گھرانے نظر نہیں آتے جن کا ہم پر حق ہے
کہ جنہوں نے اپنے مردوں کو امت پر قربان کرنے کا حوصلہ کیا اور ہم نے انہیں ہی بھلا دیا
ہم نے تو نا امت سے وفا کی
نہ ہی ان غرباء کے گھرانوں سے وفا کی
ہم سے بڑھ کر بے وفا کون ہوگا
مفہوم حدیث ہے کہ
حرمة نساء المجاهدين على القاعدين كحرمة امهاتهم )
: ”مجاہدین کی خواتین کی حرمت،
جہاد میں شریک نہ ہونے والوں پر، ان کی ماؤں کی حرمت جیسی ہے،
آج ہم سب ان ماؤں سے غافل ہے
یاد رکھیے گا یہ ہم پر لازم ہے
کہ ہم ان کا خیال اپنے گھر والوں سے بڑھ کر رکھے
اپنے ارد گرد دیکھیے گا
کوئی بھی گھرانہ ایسا ہے
تو ان کی اولادوں کا اپنی اولادوں سے بڑھ کر خیال رکھے
یہ سوچ کر ان بچوں کا والد میرے فرض کو بھی نبھا رہا ہے
آپ خاتون ہے
تو یہ سوچ کر خیال رکھے
اس عورت نے میرے حصے کے فرض کو بھی ادا کیا
کہ اپنے سر کے تاج کو بھیج کر امت مسلمہ کی داد رسی کی
اور میں اپنے گھر میں عیش و عشرت سے زندگی گزار رہی ہو
اس ماں کا خیال رکھے
کہ عمر کے اس حصے میں جب ماں کو اپنے جوان بیٹے کی ضرورت ہوتی ہے
جس وقت کے لئے مائیں بیٹے مانگتی ہے
آج وہ ماں اپنے اس دور کو تن تنہا بیٹے کی یادوں کے سہارے گزار رہی ہے
وہ باپ جس نے اس مرد مجاہد کو اپنے بازوؤں میں کھلایا تھا
کہ میرے بڑھاپے میں میرا سہارا بنے گا
آج وہ باپ کمزور ناتواں جسم کے ساتھ کپکپاتے ہاتھوں سے مسجد کی طرف جاتا ہے
تو واپسی میں اس کو سہارا دینے والا بیٹا ساتھ نہیں ہوتا
اس کے ہم عمر معمر بزرگوں کے ساتھ ان کے بیٹے موجود ہوتے ہیں
خدارا اس عظیم مجاھد کے والد کا خیال اپنے والد سے بڑھ کر رکھے
کہ ان کو کبھی یہ احساس نہ ہو
کہ ہم نے امت مسلمہ کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر کے اچھا نہیں کیا
ان کی اولادوں کا ان کے والدین کا خیال اپنے سے بڑھ کر رکھے
کہ وہ میرا آپ کا فرض بھی نبھا رہے ہیں
ہم کچھ اور نہ سہی یہ تو کر ہی سکتے ہیں
Comments
Post a Comment