"رحمت کی روشنی: ایک توبہ کرنے والے دل کی متاثر کن اسلامی کہانی"

 







مدینہ کے ایک پرانے محلے میں احمد نام کا ایک نوجوان رہتا تھا۔ باہر سے دیکھنے پر وہ عام سا لڑکا لگتا تھا: دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق، کھیل تماشے، اور دنیاوی خوشیوں میں مگن۔ لیکن دل کے کسی کونے میں ایک خلا تھا جسے وہ خود بھی نہیں سمجھ پاتا تھا۔ اکثر رات کے پچھلے پہر جب سڑکیں خاموش ہو جاتیں اور آسمان پر ستارے جھلملاتے، اسے محسوس ہوتا کہ زندگی کا کوئی بڑا مقصد ہے جسے وہ کھو بیٹھا ہے۔

احمد کا بچپن دین کے ماحول میں گزرا تھا۔ اس کے والد ایک نیک شخص تھے، جو ہمیشہ نرم لہجے میں قرآن کی آیات سمجھاتے اور نبی کریم ﷺ کی سیرت سناتے۔ لیکن والد کے انتقال کے بعد احمد آہستہ آہستہ غفلت کے راستے پر چل نکلا۔ دنیاوی مصروفیات اور غلط صحبت نے اسے دین سے دور کر دیا۔

ایک دن احمد کے دوستوں نے اسے ایک دعوت پر بلایا۔ وہاں ہنسی مذاق، موسیقی اور غفلت کی باتیں ہو رہی تھیں۔ احمد ہنس تو رہا تھا، مگر دل کے اندر ایک بے چینی تھی۔ اسی لمحے اس کے ذہن میں اپنے والد کا جملہ گونجا:
"بیٹا، گناہ وقتی خوشی دے سکتے ہیں مگر دل کو سکون صرف اللہ کی یاد سے ملتا ہے۔"

احمد خاموشی سے وہاں سے اٹھا اور باہر آ گیا۔ سرد ہوا چل رہی تھی، آسمان پر چاند اپنی روشنی بکھیر رہا تھا۔ وہ سڑک پر چلتا ہوا مسجد نبوی کے قریب پہنچ گیا۔ رات کا آخری پہر تھا اور مسجد کے دروازے کھلے تھے۔ اندر سے تلاوتِ قرآن کی آواز آ رہی تھی۔ یہ آواز سیدھی اس کے دل میں اتر گئی۔

احمد نے دبے قدموں سے اندر جا کر دیکھا کہ ایک بزرگ شخص قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ آیت آئی:

"قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّہِ، إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعاً…"
(سورۃ الزمر: 53)

یہ الفاظ احمد کے دل کو چیر گئے۔ وہ بیٹھ گیا، اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ سوچنے لگا:
"کیا واقعی اللہ میری سب خطائیں معاف کر سکتا ہے؟ کیا میرے جیسے غافل کے لیے بھی اس کی رحمت ہے؟"

اسی وقت اس کے ذہن میں نبی ﷺ کی حدیث آئی جو اس نے بچپن میں سنی تھی:
"اللہ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔"

احمد نے سجدہ کیا اور دل ہی دل میں کہا:
"اے اللہ! میں لوٹ آیا ہوں۔ میں نے اپنی زندگی ضائع کی، مگر اب میں تیری طرف پلٹ آیا ہوں۔ مجھے معاف کر دے۔"

اس رات کے بعد احمد کی زندگی بدل گئی۔ اس نے پرانے دوستوں کی محفلیں چھوڑ دیں، نماز کی پابندی شروع کی، اور قرآن کے ترجمے کے ساتھ تلاوت کرنے لگا۔ ابتدا میں یہ آسان نہ تھا—اس کے دوستوں نے مذاق اڑایا، کچھ نے کہا کہ یہ سب وقتی جوش ہے۔ لیکن احمد نے ہمت نہ ہاری۔

کچھ ہی دنوں میں احمد کی طبیعت میں عجب سکون آ گیا۔ وہ فجر کی اذان سے پہلے اٹھنے لگا، مسجد کے صحن میں بیٹھ کر دعا کرتا، اور اپنے والد کے لیے مغفرت مانگتا۔ اس نے اپنے محلے کے بچوں کو قرآن پڑھانا شروع کیا اور غربا کی مدد کرنے لگا۔

ایک دن وہی بزرگ جن کی تلاوت نے اس کے دل کو جگایا تھا، اسے دوبارہ مسجد میں ملے۔ احمد نے ان کے قدموں کو چھو کر کہا:
"حاجی صاحب! آپ کی تلاوت نے میری زندگی بدل دی۔"

بزرگ مسکرا کر بولے:
"بیٹا، یہ میری آواز نہیں تھی، یہ اللہ کی کتاب کی تاثیر ہے۔ جب دل سچائی تلاش کرے تو ایک آیت بھی اسے بدل دیتی ہے۔"

وقت گزرتا گیا۔ احمد نہ صرف ایک نیک انسان بن گیا بلکہ دوسروں کے لیے روشنی کا ذریعہ بھی بن گیا۔ محلے کے کئی نوجوان جو پہلے غفلت کی راہوں پر تھے، احمد کو دیکھ کر بدلنے لگے۔ وہ جان گئے کہ توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔

احمد اکثر کہا کرتا:
"اگر تم نے گناہ کیے ہیں تو مایوس نہ ہو۔ شیطان چاہتا ہے کہ تم اللہ کی رحمت سے ناامید ہو جاؤ۔ مگر اللہ کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ سمندر کے جھاگ کے برابر بھی گناہ ہوں تو وہ معاف کر سکتا ہے۔"

اس کی کہانی اس حقیقت کی گواہی تھی کہ ایک دل کی توبہ نہ صرف ایک زندگی بدل سکتی ہے بلکہ کئی اور دلوں کے لیے روشنی کا سبب بن سکتی ہے۔


پیغام برائے قارئین

یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ چاہے ہم کتنی ہی دور کیوں نہ چلے جائیں، اللہ کی رحمت ہمارے قریب ہے۔ توبہ اور رجوع الی اللہ کبھی بھی دیر سے نہیں ہوتا۔ جیسے احمد کی زندگی بدلی، ویسے ہی ہر وہ دل بدل سکتا ہے جو اخلاص کے ساتھ اللہ کی طرف پلٹ آئے۔

Comments

Popular posts from this blog