Posts

Image
 

VD

  https://chat.whatsapp.com/IIlm7UQBQAL7Dqvr7U5h2L

اپنی سوچ کا اظہار کرنا آپ کا حق ہے..... مگر اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط کرناآپ کی زیادتی ہے

 اپنی سوچ کا اظہار کرنا آپ کا حق ہے. مگر اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط کرناآپ کی زیادتی ہے اکثر لوگوں  کـی عادت ہوتــی  وہ ہمیشہ سوچتے رہتے ہیں کـہ کاش!...... ہـم فلاں فلاں انسان  کـی جگہ ہوتــے...تـو  کتنا اچھــا  ہوتا, اپنا موازنہ کبھی بھـی  کسی ساتھ مت کریں, سب کا سلیبس...... الگ ہے,سب کا امتحان الگ ہـے,سب کـی پریشانیاں الگ ہیں,سب کـی دنیا الگ ہـے ,سب کا درجہ الگ ہـے  انسان کا انسان  کـے  ساتھ موازنہ بنتا ہـی نہیـــــں "شکر زندگی کی شکر ہے یا شوگر ہے" کڑوی چاے کو شوگر یا شکر میٹھا کر دیتی ہے اسی طرح شکر آپ کی تلخیوں کو مٹا دیتا ہے.  👈🏻🌹 اللہ نے جو دیا اس پر "الحمد اللہ " کہیں جو نہیں دیا اس پر اس سے بڑ کر "الحمد اللہ" کہیں  جو لے لیا اس پر سو دفعہ "الحمد اللہ" کہیں اور جو کبھی نہیں ملنا اس پر کروڑ دفعہ شکر کریں  خوش رہیںخوشیاں بانٹتے رہیں   🌷

الله جسے چاہے ہدایت دیتا ہے

   الله جسے چاہے ہدایت دیتا ہے کہانی سنانے والے کہتے ہیں کہ میں جرمنی کے شہر بون کی ایک یونیورسٹی میں ستر کی دہائی میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اس دوران، میرے اپارٹمنٹ کی عمارت میں ایک مصور رہتا تھا۔  اس مصور کی عادتیں کافی عجیب تھیں،  اور جیسا کہ میں سمجھتا ہوں،  ہر فنکار میں تھوڑا سا جنون پایا جاتا ہے،  لیکن اس شخص کا جنون کچھ زیادہ ہی تھا۔ وہ اکثر اپنی بالکونی میں مکمل برہنہ کھڑا ہوتا تھا، جب میں یونیورسٹی سے واپس آتا۔  یہ منظر مجھے بہت زیادہ ناگوار گزرتا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے اس پر کم توجہ دینا شروع کر دی۔  تاہم، اندر ہی اندر مجھے اس حرکت سے نفرت محسوس ہوتی تھی، لیکن جرمنی میں آزادی کی حدیں بہت وسیع تھیں، اس لیے میں نے یہ سوچا کہ مجھے ان چیزوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔ ایک دن وہ شخص میرے ساتھ عمارت میں داخل ہوا اور ہمارے درمیان ایک مختصر گفتگو ہوئی،  جس نے میری اور اس کی زندگی بدل دی۔ "شام بخیر"، اُس نے کہا۔ "شام بخیر"، میں نے جواب دیا۔ "میں آپ کا ہمسایہ ہوں، میرا نام پیٹرک ہے اور میں ایک پیشہ ور مصور ہوں۔ میں نے کئی بار آپ...

حکمت:

  حکمت: ایک گاؤں میں ایک نیک آدمی رہتا تھا جس کی دینداری کی مثالیں پورے گاؤں میںدی جاتی تھیں۔ سب لوگ اس سے دینی مسائل پوچھتے اور اسے ایمان اور دینداری کی علامت سمجھتے تھے۔ ایک دن گاؤں میں زبردست سیلاب آیا جو ہر طرف پانی ہی پانی لے آیا۔ صرف وہی لوگ بچ پائے جن کے پاس کشتی تھی۔ کچھ گاؤں والے اس نیک آدمی کے گھر اسے بچانے کے لیے پہنچے، لیکن اس نے کہا: "کوئی ضرورت نہیں، اللہ مجھے بچا لے گا، تم لوگ جاؤ۔" پھر دوسری جماعت آئی، انہوں نے بھی اس سے مدد کی پیشکش کی، مگر اس نے پھر سے کہا: "کوئی ضرورت نہیں، اللہ مجھے بچا لے گا، تم لوگ جاؤ۔" تیسری بار بھی ایک خاندان آیا، لیکن اس نے انہی الفاظ سے انکار کر دیا۔ سیلاب کے بعد جب لوگ جمع ہوئے تو انہیں اس نیک آدمی کی لاش ملی۔ لوگوں میں بحث شروع ہو گئی کہ اللہ نے اسے کیوں نہیں بچایا؟ اللہ نے اپنے بندے کی مدد کیوں نہیں کی؟ اس وقت ایک سمجھدار اور تعلیم یافتہ نوجوان نے کہا: "کس نے کہا کہ اللہ نے اس کی مدد نہیں کی؟ اللہ نے تین مرتبہ اسے بچانے کے لیے لوگوں کو بھیجا، مگر اس نے خود انکار کر دیا!" حکمت: اللہ تعالیٰ ہماری مدد خیالی یا جا...

شہزادی اور دھوبی کا بیٹا.

 شہزادی اور دھوبی کا بیٹا. مرزا مظہر جانِ جاناں ایک مشہور صوفی تھے۔ مرزا مظہر اکثر ایک جملہ کہا کرتے تھے کہ ’’ہم سے تو دھوبی کا بیٹا ھی خوش نصیب نکلا، ہم سے تو اتنا بھی نہ ہوسکا‘‘۔ پھر غش کھا جاتے۔ ایک دن ان کے مریدوں نے پوچھ لیا کہ حضرت یہ دھوبی کے بیٹے والا کیا ماجرا ہے؟ آپ نے فرمایا ایک دھوبی کے پاس محل سے کپڑے دھلنے آیا کرتے تھے اور وہ میاں بیوی کپڑے دھو کر پریس کرکے واپس محل پہنچا دیا کرتے تھے، ان کا ایک بیٹا بھی تھا جو جوان ہوا تو کپڑے دھونے میں والدین کا ھاتھ بٹانے لگا، کپڑ وں میں شہزادی کے کپڑے بھی تھے،  جن کو دھوتے دھوتے وہ شہزادی کے نادیدہ عشق میں مبتلا ہوگیا، محبت کے اس جذبے کے جاگ جانے کے بعد اس کے اطوار تبدیل ہوگئے، وہ شہزادی کے کپڑے الگ کرتا انہیں خوب اچھی طرح دھوتا، انہیں استری کرنے کے بعد ایک خاص نرالے انداز میں تہہ کرکے رکھتا، سلسلہ چلتا رہا آخر والدہ نے اس تبدیلی کو نوٹ کیا اور دھوبی کے کان میں کھسر پھسر کی کہ یہ تو لگتا ہے سارے خاندان کو مروائے گا، یہ تو شہزادی کے عشق میں مبتلا ہوگیا ہے، والد نے بیٹے کے کپڑے دھونے پر پابندی لگا دی، ادھر جب تک لڑکا محبت کے زی...